Friday, 31 March 2017

ضلع کوھاٹ میں نئے پاکستان کی تلاش !

چار سال پہلے سیاست میں میرا انٹرسٹ زیرو تھا۔ سیاست کا نام سن کر ذہہن میں دھوکہ بازی، کرپشن، مورثیت کا خیال اتا تھا۔
لیکن تب ایک نعرہ لگا وہ نعرہ ایک ایسا پاکستان بنانے کا تھا جاسمیں قانون اور انصاف کی بالادستی کی بات کی گئی۔ ایک نیا پاکستان بنانے کی بات کی گئی۔ میں اس بات سے متاثر ہوا کیونکہ یہ بات کہنے والا کوئی عام روائتی سیاست دان نہیں تھا۔ وہ پاکستان کی کرکٹ کا ہیرو عمران خان تھا۔
خیر الیکشن کا دور آیا میں اس وقت اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ میں نے عمران خان کے نیا پاکستان کے نظریے کو کامیاب بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اسوقت اپنے دوستوں کو تحریک انصاف میں لے کر ایا۔ الیکشن کے وقت میرے ضلع میں جن کو ٹکٹ ملا انکو میں نہیں جانتا تھا بس مجھے عمران خان صاحب کی وہ بات یاد ہے کہ اقتدار میں ائے تو کوئی غلط کام نہ خود کریں گے اور نہ دوسروں کو کرنے دیں گے۔

الیکشن میں تحریک انصاف کی خیبر پختنخواہ میں حکومت بنی اور میری خوش نصیبی تھی کہ میرا تعلق اسی صوبہ سے تھا۔ تحریک انصاف کے ساتھ اسکے اتحادی بھی حکومت کا حصہ بنے۔ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی۔
میں بڑا خوش تھا میں نے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری لے لی تھی۔ مجھے یقین تھا خیبر پختنخواہ میں میرٹ کا بول بالا ہوگا۔ اور کچھ حد تک ایسا ہوا بھی۔ لیکن مشکل تب ائی جب میں نے لوکل کونسل بورڈ پشاور میں این ٹی ایس کے ذریعے ٹیسٹ دیا۔ رزلٹ اناونس ہوا لیکن انٹرویو کیلئے ہم سے کم نمبروں والے امیدواروں کو بلالیا گیا۔ اس پر 2014 میں کچھ امیدواروں نے کورٹ سے سٹے اڈر لے لیا۔ اور اج تک تاریخیں چل رہی ہے۔ لوگوں نے مجھ سے کہا لوکل کونسل بورڈ کا محکمہ جماعت اسلامی کے پاس ہے وہ اسمیں اپنے امیدوار لانا چاہتے ہے لیکن میں نے کہا عمران خان نے کہا تھا نہ خود غلط کریں گے اور نہ کرنے دیں گے۔ یہی سوچ کر میں نے جنوری سال 2016 میں منرل اینڈ مائینز ڈپارٹمنٹ کے پی کے جو کہ قومی وطن پارٹی کے پاس ہے میں این ٹی ایس کے ذریعے نوکری کے لیئے امتحان دیا۔ دو ہفتے بعد رزلٹ دے دیا گیا لیکن تب انتظار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت معلوم کرنے کی کوشیش کی کہ میرٹ لسٹ اور انٹرویو کب ہونگے۔ ہربار جواب اتا کہ ہم اس پر کام کررہے ہے ہماری کچھ ایڈمین اویسیٹریٹو ایشوز ہے۔ لہکن میرا انتظار مارچ 2017 میں تب ختم ہوا جب منرل اینڈ مائینز نے وہی اسامیاں دوبارہ اشتہار کردی اور ہمیں کہا گیا پچھلے ٹیسٹ کو ختم تصور کیا جائے۔ اپ سب امیدوار پھر اے اپلائی کریں۔ اس بار این ٹی ایس کو بھی نکال دیا گیا ہے اور ڈپارٹمنٹ طے کرے گا کہ کس کو لینا ہے اور کسکو نہیں۔ یہ ناانصافی دیکھ کر میرا خون کھول گیا میں نے منرل ڈپارٹمنٹ سے خط کے ذریعے جواب مانگا لیکن وہ جواب دینے سے قاصر ہے۔ میں نے قانونی چارہ جوئی کا سوچا لیکن لوکل کونسل بورڈ کا وہ کیس جو تین سال گزر گئے چل رہا ہے۔ نہ میرے پاس وسائل نہیں کہ ایک ادرارے کے ساتھ کیس لڑھ سکوں۔
لہذا میں نےتمام معاملہ پی ٹی ائی ایم پی اے کے سامنے رکھا اور کہا میں نے جس نظریے کے تحت اپ کو ووٹ دیا تھا اس نظریے کو بالائے طاق کام ہورہا ہے اپ چیف منسٹر سے بات کریں یا اسمبلی میں اواز اٹھائے۔
ایم پی اے تحریک انصاف کے جواب نے میرے ارمانوں اور تحریک انصاف کے نعروں اور نظریوں پر پانی پھیر دیا۔ ان کا کہنا تھا مجھےبھی پتہ ہے اور چیف منسٹر کو بھی پتہ ہے کہ ہمارے اتحادی غلط کر رہے ہے اگر ہم انکو روکتے ہے تو ہماری حکومت جاتی ہے۔ لہزا ہم مجبور ہے۔ 
میں نے چیف منسٹر کمپلینٹ سیل کو خط لکھا لیکن تاحال جواب نہیں ملا۔

میرے لیئے اب بس صرف عمران خان کی رائے اور اقدام کا انتظار ہے کیا عمران خان صاحب اپنے اصولوں کو مقدم جان کر ہمیں ریلیف دیں گے یا کے پی کے میں اپنے اتحادیوں کے غلط کاموں کو نظرانداز کرکے اگے بڑھے گے۔

ازطرف
محسن خان
ضلع کوھاٹ خیبر پختنخواہ
ووٹر این اے۔14
پی کی۔ 38